تحریر: مولانا نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ملک بھر میں ہر طرف ترنگوں کی بہار ہے ، گھروں بازاروں شاہراہوں پر ترنگیں لہرا رہے ہیں ، اسکولوں میں مدرسوں اور کالجوں، یونیورسٹیوں اور عمومی اجتماعات کی جگہوں پر پرچم کشائی کی باوقار تقاریب منعقد ہو رہی ہیں ایک بار پھر ہم یوم جمہوریہ منا رہے ہیں ۲۶ جنوری اس عظیم دن کی یاد دلاتا ہے جب ہمارا بنیادی دستور نافذ ہوا ، آج کی یہ تاریخ ہم سب کے لئے اس لئے اہم ہے کہ1950 آج ہی کے دن ہمارے ملک ہندوستان نے جمہوری شکل حاصل کی اور جمہوریت کا لباس پہنا، آج ہی کا دن تھا جب ہمارے ملک میں جمہوری نظام نافذ ہوا اور ہمارے ملک کی عوام نے خود پر جمہوری قانون لاگو کیا یاد رہے آزاد ہندوستان کا اپنا دستور (قانون) بنانے کیلئے ڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29 اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی, جسکو ملک کا موجوده دستور مرتب کرنے میں 2 سال 11ماه اور 18دن لگے تھے , دستورساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہراک شق پر بحث ہوئ , پھر 26 نومبر 1949کو اسے قبول کرلیاگیا, اور 24 جنوری 1950 کوایک مختصراجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پردستخط کردیا,البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے دستورکے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکها کہ "یہ دستور برطانوی دستورکاہی اجراء اورتوسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزا دہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا "بہرحال 26 جنوری 1950 کو اس نئےقانون کولاگو کرکےملک بھر میں پہلا "یوم جمہوریہ" منایاگیا, اس طرح ہرسال 26 جنوری " یوم جمہوریہ " کے دن کے طور پر پورے ملک میں جوش وخروش کےساتھ منایاجاتاہے, اور 15 اگست 1947 کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کی قومی اور یادگاری کے طور پر منائی جاتی ہے ۔
کچھ بنیادی دستور العمل کے بارے میں :
ہندوستان کا آئین 26 نومبر 1949 کو بن کر تیار ہوا تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے 2 سال 11ماہ 18 دن میں 26 نومبر 1949 کو آئین مکمل کیا اور اسے قوم کے نام وقف کر دیا۔ آئین 26 جنوری 1950 سے نافذ ہوا۔
[1]ہندوستان کا آئین اس ملک کا بنیادی دستور العمل بن گیا، جس نے 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی جگہ لے لی، جسے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تھا۔
قابل غور ہے ہندوستانی آئین دنیا کا سب سے طویل آئین ہے اور دوسرا سب سے بڑا فعال آئین ہے۔ اس کے 25 حصوں میں 470 دفعات اور پانچ ضمیموں کے ساتھ 12 شیڈول ہیں۔ اس میں اصل میں 22 حصوں اور 8 شیڈولز میں 395 دفعات تھے۔
ہندوستان کا آئین مرکز اور ریاستوں کے درمیان ملک میں سیاسی طاقت کے ڈھانچے میں امتیازات بیان کرتا ہے۔ یہ حکومت کے مختلف ارکان یعنی عدلیہ، عاملہ اور مقننہ کے توازن اور نگرانی فراہم کرتا ہے، تاکہ کسی خاص شاخ میں طاقت کے ارتکاز کو روکا جا سکے[2]۔
حق مساوات اور آزادی کا حامل قانون :
’’حق مساوات کے ساتھ ہی ایک جمہوری آئین کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہاں کے رہنے والے مختلف قسم کی آزادی کے حامل ہوں۔ ان میں اظہار رائے کی آزادی بھی ہوسکتی ہے اور مختلف جلسے، انجمنیں اور جلوس وغیرہ منعقد کرنے، تنظیمیں اور تحریکیں بنانے اور چلانے، آزادانہ طور پر پورے ملک کا سفر کرنے، نیز سرمایہ کاری کی آزادی اور جان و مال کی آزادی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے باوقار آئین میں کہا گیا ہے۔ دفعہ 19 تا 22 میں لکھا ہے ’’مملکت کے تمام شہریوں کو حق حاصل ہوگا۔‘‘
(الف) مملکت کے ہرایک حصہ میں تقریر اور اظہار کی آزادی کا۔
(ب) امن پسند طریقے سے اور بغیر ہتھیار کے جمع ہونے کا۔
(ج) انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا۔
(د) بھارت کے سارے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کا۔
(ھ) بھارت کے کسی بھی حصے میں بود و باش کرنے اور بس جانے کا۔
(ی) کسی پیشے کے اختیار کرنے یا کسی کام دھندے، تجارت یا کاروبار چلانے کا۔
مذہب کی آزادی:
انسانی فطرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے حساس مذہبی جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہی مختلف افراد میں جنگ و جدل کاجذبہ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان ملکوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار رہتے ہوں۔ ہمارے ملک کا اس سلسلہ میں بہت نمایاں مقام ہے ؛کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔اس سلسلے میں ہمارے سیاسی قائدین نے بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا کہ انھوں نے یہاں کسی مذہب کو خاص اہمیت نہ دے کر سب کو برابر اوریکساں حقوق دئیے۔ اس لئے آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے، اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے اوراس کے اصولوں پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 25 میں کہا گیا ہے۔ ’’تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے۔ اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔‘‘
ثقافتی اور تعلیمی حقوق:
ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا امین اور مختلف تعلیمی نظریات کا گہوارہ ہے اسی وجہ سے یہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام ہی لوگوں کو اپنی تہذیب وثقافت اور علم و ادب کی حفاظت کو فروغ کے حقوق حاصل ہوں۔ یہاں کے ہرایک شہری کوحصول تعلیم کی آزادی اور اپنے شعائر و ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کااختیار دیا جائے۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 29 میں کہا گیا ہے۔ ’’بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقے کو جس کی اپنی جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہوگا۔‘‘ آئین کی دفعہ 30 میں یہ بھی کہا گیا ہے۔ ’’تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کے نام پر ہوں یا زبان کے، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کے انتظام کاحق حاصل ہوگا۔‘‘
جائیداد کا حق:
مملکت میں رہنے والوں کو آئینی اعتبار سے یہ حق بھی دیاگیاہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیاجاسکتا ہے اور اسے اپنی جائیداد فروخت کرنے یاکسی دوسرے کی جائیداد خریدنے خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہو کا اختیار حاصل ہوگا۔ ملک کے ہر شہری کویہ بھی حق دیاگیاہے کہ وہ متعلقہ قوانین کی رعایت رکھتے ہوئے اپنی املاک و جائیداد اور ان سے حاصل شدہ آمدنی کو کسی بھی طرح اپنے اوپر خرچ کرسکتا ہے۔ یا کسی تنظیم، تحریک یا کسی اور کو ملک کی فلاحی و رفاہی کاموں پر خرچ کرسکتا ہے۔
دستوری چارہ جوئی کاحق:
ہمارے آئین کے تیسرے حصے میں ضبط کئے گئے حقوق کو بحال کرانے اوران کی حفاظت کے لئے سپریم کورٹ و دیگر عدالتوں سے چارہ جوئی کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ متعلقہ عدالتوں کو ان حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لئے ہدایات یا احکام یا مختلف خصوصی فرمان جاری کرنے کااختیار دیاگیا ہے۔ آئینی اعتبار سے عدالتی چارہ جوئی کے حق کو محض دستور میں بیان کی گئی متعلقہ دفعات کے تحت ہی معطل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سے بنیادی حقوق کس حد تک کسے دئیے جائیں۔ غرض کہ آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو ہی کسی بھی معاملے میں دستوری چارہ جوئی کا پورا پورا حق دیاگیا ہے۔ جو کچھ آئین کے اندر بیان کیا گیا ہے اس سے اس کی ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اب ضرورت صرف اس کے غیرجانب دارانہ اور عادلانہ نفاذ کی ہے؛جس کے لیے انتھک محنت و مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے[3]
ہماری ایک بڑی مشکل :
ہمارا بنیادی دستور ہمیں ہمارے حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے لیکن افسوس ’’اس وقت ہم کروڑوں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دستورو آئین سے متعلق بالکل معلومات حاصل نہیں، ہمیں اس بات کا پتہ ہی نہیں کہ بحیثیت شہری اور مسلمان ہونے کے ہمیںکیاکیا حقوق حاصل ہیں،ہمیں اس کی خبر ہی نہیں کہ آئین نے ہمیں کیا دیا ہے اور ہم دی گئی مراعات سے کیا فائدہ اٹھارہے ہیں اور کیا اٹھاسکتے ہیں؟؟۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کیا جائے اور موجودہ حالات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم آج کے دن (۲۶؍جنوری) آئین ہند کا بطور خاص مطالعہ کریں، اس حوالے سے ناخواندہ لوگوں میں شعور بیدار کریں،ملی تنظیمیں اس سلسلہ میں ورک شاپس کا انعقاد عمل میں لائیں، تب کہیں جاکر ہم مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھ سکتے ہیں ۔۔۔‘‘[4]۔
ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ :
آج کے دن خوشیاں منانے کے ساتھ ایک بار ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کے پچھتر برس مکمل ہونے کے بعد ہم کہاں ہیں اس کے لئے گاندھی جی کے چشمے سے بہتر اور کیا ہوگا تو آئیں گاندھی جی کے چشمے سے ان پچھتر برسوں کو دیکھتے ہیں اور اسکے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے بنیادی دستور پر نظر ڈالیں ۔
ہم نے بنیادی دستور کے کچھ اہم حصوں پر روشنی ڈالی ہمارے لئے اس کی تمہید بھی بہت اہم ہے جس میں واضح طور پر یوں درج ہے :
"ہم ہندوستان کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے:
سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف؛
خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی؛
بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات
حاصل کریں گے اور ان سب میں
اخوت کو ترقی دیں گے جس سے فرد کی عظمت، قوم کے اتحاد اور سالمیت کا تیقن ہو؛"
یہ مختصر تمہید اس بنیادی دستور کا نچوڑ ہے جو دنیا کا دوسرا سب سے ضخیم ملکی آئین ہے۔ یہ وہ آئین ہے جس میں مذکورہ تمہید کےعلاوہ 448 دفعات ہیں۔ تمام دفعات 25 حصوں میں منقسم ہیں۔ کل 12 درج فہرستیں ہیں اور 5 زائدے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے دستور ساز اسمبلی نے بابا صاحب کی سربراہی میں کتنی عرق ریزی کے ساتھ اسے اس طرح بنایا تھا کہ دین، مذہب، رنگ و نسل سے پرے تمام ملک کے باشندوں کے حقوق کا محافظ ہو ۔
لیکن افسوس گاندھی جی کے چشمے سے آج جب ہم ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو جابجا اس آئین کے پرخچے اڑتے نظر آتے ہیں جس مذہبی جنون کے دیو کو آئیں کے سخت پنجوں میں جکڑ دیا گیا تھا وہ باہر نکل کر دندناتا گھوم رہا ہے نفرتوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں دبے کچلوں اور غریبوں کو جس آئین نے سہارا دیا تھا آج انہیں کو ہر طرف ملک میں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔۔۔۔
شاید ایسا اس لئے ہے کہ گاندھی جی کا چشمہ کسی میوزیم میں پڑا دھول کھا رہا ہے اور لوگ سرمایہ داری کا چشمہ لگا کر ملک چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے غریب و مزدور انہیں دکھ ہی نہیں رہے ہیں ہر طرف سرمایہ دار ہی پھلتے پھولتے نظر آ رہے ہیں ، غریب و نادار طبقہ محروم سے محروم تر ہوتا جارہا ہے ۔ایسے میں ہمارے لئے ضروری ہے ایک بار پھر ملک کو اسی نظر سے دیکھیں جس سے گاندھی جی دیکھتے تھے کم از کم آج جب ہم 26 جنوری ۲۰۲۴ کو جب آزادی کے پچھترویں یوم جمہوریہ کے موقع پر بنیادی دستور کے نفاذ کا جشن منا رہے ہیں تو ایک بار گاندھی جی کی کے چشمے سے دیکھ لیں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہیے؟۔۔
حواشی :
[1] ۔ https://web.archive.org/web/20110511104514/http://parliamentofindia.nic.in/ls/debates/facts.htm
[2] ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : :ہارون خاں شیروانی ناشر :تلگو اردو اکادمی، حیدرآبادسن اشاعت :1965بہ تعاون :انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
[3] ۔ تفصیل کے لئے : (آئین ہند؛حقوق انسانی کا سچا علم بردار، ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد: 90)
[4] ۔ https://nooriacademy.com/fundamental-rights-of-citizens-in-the-constitution-of-india/